سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

ماں باپ اگر جنت ہیں تو دوزخ کیسے ہیں؟

ماں باپ اگر جنت ہیں تو دوزخ کیسے ہیں؟


ماں باپ اگر جنت ہیں تو دوزخ کیسے ہیں؟


ماں باپ اگر جنت ہیں تو دوزخ کیسے ہیں؟

ہر انسان کو جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اس بات پر کامل یقین ہے کہ ایک دن اس دنیا کو فنا ہونا ہے اور ہمیں اللہ کے حضور کھڑا ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔اور ان دو قسم کے حقوق کا جواب دینا ہے جن کا ادا کرنا واجب ہے جن میں سے ایک حقوق اللہ یعنی اللہ کے حقوق اور دوسرا حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق ہے۔اللہ تعالی قیامت کے دن اپنے حقوق کا مطالبہ الگ کرے گا اور بندوں کے حقوق کا مطالبہ علحیدہ۔اور اللہ کے حقوق وہی ہے جو اس نے اپنے انبیاء و رسل کی زبان پر عبادات و طاعات میں فرض و واجب کیے ہیں اور ان کے ترک پر عذاب کی وعید فرمائی ہے۔اب رہے حقوق العباد سو وہ بہت ہے۔لیکن اس جگہ ان سب سے بحث نہیں۔ فقط حقوق الوالدین بیان کرنا مقصود ہے۔ کیونکہ حقوق الوالدین حقوق العباد میں اول درجہ رکھتے ہیں۔اور حقوق اللہ میں تھوڑی بہت کمی اگر رہ بھی جائے تو امید ہے کہ اللہ رب العزت معاف فرما دے گا۔لیکن حقوق العباد کی معافی تب ہی ممکن ہے کہ پہلے صاحب حق معاف فرمائے۔اسی لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید قرآن و حدیث میں بار بار آئی ہے۔اور قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنی عبادت کے بعد جن ہستیوں کی اطاعت اور شکرگزاری کا ہمیں حکم دیتے ہیں وہ ہمارے والدین ہیں۔کیونکہ والدین کائنات کی وہ دو عظیم ہستیاں ہیں جو اللہ تعالی کے بعد انسان پر سب سے زیادہ احسان کرتے ہیں۔ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے مرنے تک اس کے دکھ درد کا خیال کرتے ہیں۔ بچے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ اور بچوں کے آرام اور سہولت کے لئے اپنی راحتوں کو قربان کر دیتے ہیں ۔اور اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے جان لگا دیتے ہیں۔ ماں اپنے بچے کو نو مہینوں تک تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھتی ہے ۔اسی چیز کو اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا ہے۔
ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے (الاحقاف: 15(


ہم نے انسان کو اپنے والدین کے حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے( اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا (لقمان:14)
ان آیات کریمہ میں اللہ رب العزت ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچے کے لیے کتنی تکلیفوں کا سامناکیا۔ خصوصا ماں نے ہمارے پیدا ہونے سے پہلے بھی کیا کچھ نہیں سہا۔ اور اللہ رب العزت حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو،اور میرے شکر کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا شکر بھی بجا لاو۔یہ تمہاری فلاح کی چابی ہے۔مزید ان آیات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جو والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا ہے والدین کی اولاد کیلۓ یہ تکلیفوں کا تقاضہ ہے ۔کہ جب بچے جوانی کو پہنچے تو والدین کے ساتھ احسان کریں ان کے لیے دعائیں کریں یقینا ایسے لوگ جنتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے رب کی رضا ہے۔جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رب کی رضا والدین کی رضا ہے اور رب کا غصہ والدین کے غصے میں ہے۔( الترمذی)یعنی رب کو راضی کرنا چاہتے ہو تو والدین کو راضی کرلو۔اگر والدین راضی ہوگئے ،رب راضی ہوگیا اور تمہاری دنیا بھی آباد ہو گی اور آخرت بھی۔اور اگر خدانخواستہ والدین کو ناراض کردیا تو رب بھی ناراض ہو جائے گا۔

سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ والدین اپنی اولاد سے ناراض کیسے ہو جاتے ہیں؟حالاںکہ ماں باپ تو بہت خیرخواہ ہوتے ہیں۔بہت محبت کرنے والے ہوتے ہیں انہوں نے اپنی اولاد پر بہت محنت کی ہوتی ہیں ہیں۔ان کو یہ توقع ہوتی ہے کہ اولاد ہماری کسی بات سے انکار نہیں کریں گے۔یہ ہماری اطاعت کریں گے۔جب بعض اوقات اولاد ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتی‌۔تو وہ اپنے غم و غصے کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔اسی لئے ایک انسان کو ہر وقت اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہونا چاہیے۔اور رب کی رضا کو والدین کی رضا میں تلاش کرتے رہنا چاہیے۔اور اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں صاف حکم فرمادیا ہے کہ
تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہے تو انہیں اف تک نہ کہو نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو ۔اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔(بنی اسرائیل)


اس آیت کریمہ میں بھی اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے بعد جس دوسری چیز کو ایک انسان کے اوپر لازم کر دیا ہے وہ والدین کے ساتھ احسان اور نیکی کرنا ہے۔یعنی رب کی توحید کے بعد انتہائی اہمیت والی بات والدین کو راضی کرنا ہے اس آیت کے ذیل میں علامہ غلام رسول سعیدی تبیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالی کی تخلیق اور اس کی ایجاد ہیں۔اور اس کا ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہے اس لئے اللہ تعالی نے پہلے سبب حقیقی کی تعظیم کا حکم دیا اور اس کے متصل بعد سبب ظاہری کی تعظیم کا حکم دیا۔والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا ، احادیث مبارکہ میں بھی اس کی تاکید کی گئی ہے ۔
حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہے ہے کہ میرے پاس میری ماں آئی اور وہ مشرکہ تھی،میں نے رسول اللہ صلی اللہ سے پوچھا کیا میں اس سے حسن سلوک کروں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں اس سے صلہ رحمی اور اچھا سلوک کرو۔(بخاری)


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کونسا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا ۔میں نے پوچھا پھر کون سا عمل ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔(بخاری)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ وسلم میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں ۔اس نے عرض کیا پھر کون؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں ۔اس نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر کون؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری ماں؟ اس نے عرض کیا پھر کون آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تیرا باپ۔(بخاری)


حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپﷺ نے فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپﷺ نے فرمایا پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری شریف 5972)


حضرت معاویہ بن جاھمہ رضی اللہ عنھما کا بیان ہےکہ حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ حضور نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ!میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور آپﷺ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپﷺ نے فرمایا کیا تمہاری ماں(زندہ) ہے ؟انہوں نے کہا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔(نسائی، ابن ماجہ ) اور دوسری روایت میں ہےکہ آپﷺ نے حضرت جاھمہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں تو آپﷺ نے فرمایا جاؤ انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے۔(طبرانی (


حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہےکہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ منبر پر جلوۂ افروز ہوئے اور آپﷺ نے تین مرتبہ (آمین )فرمایا پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبریل(امین علیہ السلام) آئے اور انہوں نے آ کر کہا اے محمد ﷺ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان )میں سے کسی ایک کو پائے ( پھر ان سے نیکی نہ کرے ) پھر وہ مر جائے اور جھنم میں چلا جائے تو اللہ تعالی اُسے (اپنی رحمت سے ) دور کر دے۔آپ ﷺکہیں آمین تو میں نے کہا آمین، پھر انہوں نے کہا اے محمدﷺ ! جس شخص نے ماہ رمضان پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اسکی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جھنم میں داخل ہو گیا تو اللہ اُسے بھی (اپنی رحمت سے) دور کر دے۔آپ ﷺ کہیں آمین، میں نے کہا آمین ، انہوں نے کہا کہ جس شخص کے پاس آپ ﷺ کا ذکر کیا گیا اور اُس نے آپ ﷺ پر درود نہیں پڑھا پھر اُسکی موت آگئی اور وہ جھنم میں چلا گیا تو اللہ تعالی اُسے بھی (اپنی رحمت سے ) دور کر دے۔آپﷺ کہیں آمین تو میں نے کہا آمین ۔ (ابن حبان (


صحابہ کرام کے اقوال:


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی نے پو چھا کہ میں نے خراسان سے اپنی والدہ کو اپنے کندھے پر اٹھا یا اور بیت اللہ لایا اور اسی طرح کندھے پر اٹھا کر حج کے منا سک ادا کروائے ،کیا میں نے اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ؟تو حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے فرما یا: ”نہیں ہر گز نہیں ، یہ سب تو ماں کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگا یا تھا ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریا فت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کس طرح کیا جائے ؟ تو انھوں نے فرما یا: تو ان پر اپنا مال خرچ کر ، اور وہ تجھے جو حکم دیں اس کی تعمیل کر ، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔


حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فر ما یا کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی مت جھا ڑو، کہیں کپڑوں کا غبا ر اور دھول ان کو لگ نہ جا ئے۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا کہ اگر والدین کی بے ادبی میں ” اف “ سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ جلَّ شانہُ اسے بھی حرام فرمادیتے۔
قرآن و حدیث اور صحابہ کے اقوال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ والدین ایک انسان کے لیے جنت بھی ہے اور دوزخ بھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایک شخص نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری جنت ودوزخ وہی دونوں ہے۔(الحدیث) بس انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے چاہے تو ان کی خدمت کر کے جنت کا مستحق بنیں یا اللہ بچائے ان کو ناراض کرکے دوزخ کا دروازہ کھٹکھٹائے۔اسی لیے پیارے قارئین! اگر آپ کی زندگی میں والدین باحیات ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان کی فرمانبرداری کرو ۔ان کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آؤ۔ان کے حقوق کو ادا کرو۔ان کو جنت میں جانے کا راستہ بناؤ۔نہ ک ان کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ کر مغربی ممالک کے لوگوں کی طرح old age homes کی تلاش میں نکلو۔کیونکہ وہ لوگ بڑے بدبخت ہوں گے جن کے والدین ان کی جوانی میں موجود ہوں اور وہ اپنے والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا اس کی ناک خاک آلود ہو،جس نے اپنے والدین میں سے ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے میں پایا پھر (ان کی خدمت کرکے) جنت میں نہ جا سکا 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.