۔۔۔۔۔۔مرد۔۔۔۔۔۔
از۔۔۔۔ارم
رحمٰن
لاہور
ماسی
شمیم نے محلے کے کئ گھر گھیر رکھے تھے صفائی ستھرائی کے لیے ، بلکل چلتا پرزہ تھی
چھوٹے قد اور دبی رنگت والی تیز طرار عورت جو ہر وقت پھدکتی پھرتی اس کی آواز گلی
کے نکڑ سے ہی سنائی دینے لگتی ،جو بات محلے میں پھیلانی ہو ماسی شمیم کو بتا کر بس
یہ کہہ دینا کافی تھا کسی سے کہنا مت،اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر بڑے سے بڑا راز
طشت از بام ،ہر بات زبان زد عام ، نقارہ خدا سمجو ماسی کا ٹھسا اور شان دیکھنے
والی تھی ، پہنتی اترن تھی مگر بڑائی اپنی جتاتی کہ دیکھو فلانی نے مجھے ایساسوٹ
دیا اور میں نے کیسے ٹھیک کرکے پہنا یا فلانی مالکن نے میری محبت میں اتنا اچھاکام
والا سوٹ دیا , کچھ دنوں سے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی 23٫24 سالہ آٹھویں پاس خود سر
,فیشن زدہ,ضدی راشدہ کے لیے ایک خوبرو جوان جو اسے خوب فیشن کروائے، شاپنگ کروائے،
گاڑی میں پھرائے ،ایسے مالدار لڑکے کا رشتہ درکار تھا
لڑکی
کیا تھی آفت کی پرکالا ، شیطانی ذہن تھا عیش و عشرت کی خواہاں ،کوئی کام کرنے سے
موت پڑے ، ہر وقت گھومنا پھرنا ،امیر لڑکیوں سے دوستی گھومنا پھرنا اور ان کے
پیسوں پر عیش کرنا ، پھر خاندان کی چھوٹی بیٹی بھائی بہنوئی کسی کو نہ چھوڑتی مال
بٹورتی تحفے اینٹھتی ، عید بقرعید پر ماسی شمیم کو جو کپڑے لتے ملتے یا نئے جوڑے
یا کٹ پیس وہ سب ہتھیا لیتی ، کسی کا کوئی بھی کپڑا جوتا چادر برقعہ ہار ،بندے،
چوڑی ،کنگن جو بھی اسے بھا گیا جھٹ مانگ لیتی یا چھین لیتی اچھا کپڑا تو ماں کے
پاس برداشت ہی نہیں تھا جب بنا پوچھے گچھے ، اپنا سوٹ سلوا کر پہن لیتی ، کوئی
بولتا بھی تو کیا ، کیونکہ ضدی اور ڈھیٹ بات تو مانتی نہیں تھی کچھ کہہ دو توبھوک
ہڑتا ل یا رو رو کےبرا حال ،
کبھی
کسی رات کو ایک بہنوئی سے کہہ کر آئس کریم منگواتی دوسرے سے برگر کبھی ایک بھائی
سے بوتل،پھر کبھی دوسرے بھائی سے سموسے
،باپ سے ماہانہ جیب خرچ لینا نہ بھولتی کبھی
سب سے پیسے مانگ مانگ کر جمع کرتی رہتی اور پھر دیگ پکوا کر سارے محلے میں بانٹ
دیتی اور
حاتم طائی کہلواتی ،ماں
لوگوں کے گھر صفائی کرتی کپڑے دھوتی برتن مانجھتی تب جاکر چار پیسے اکٹھے ہوتے
کوئی اترن دیتاکوئی بچا کچھا کھاناکوئی صدقہ خیرات اور یہ لاڈو رانی سب منٹوں میں
اڑادیتیں ، جو بھی اس لڑکی کے بارے میں سنتا خون ہی کھولتا ہل کر پانی نہیں پیتی
تھی ،کھانا پکانا پسند نہیں کپڑے سینے کا شوق نہیں تھا مانگ تانگ کر ایک مواموبائل
خرید لیا اور اس کے ساتھ چمٹی رہتی ، گھر سے باہر نکلتی تو کیاٹھاٹھ ہوتے لگتاہی
نہیں تھاکہ چند روپوں کی خاطر لوگوں کے گھروں کا گند صاف کرنے والی کی بیٹی ہے،
پھر ایک دن غلغلہ اٹھا، کہ راشدہ کو بارہ ہزار کی ملازمت مل گئ ایک دفتر میں ،
چونکہ سمارٹ فون کو اس قدر استعمال کیا تھاکہ ٹائپنگ اچھی ہوگئ لہذا اس بل بوتے پر
امیر دوست نے اپنے کسی جاننے والے سے کہہ کر اسے ملازمت دلوادی ، ماسی بہت خوش ،
اور باقی سب حیران ، کہ یہاں تو بی اے پاس کو بارہ ہزار کوئی نہیں دیتا تو اس
آٹھویں پاس کو کیونکر مل سکتے ہیں ، کچھ لوگوں کو شک ہوا کہ مالک ٹھرکی نہ ہو جوان
لڑکی کو دفتر میں بٹھا کر ٹھرک پوری کرتا رہے یا کچھ لوگوں کا فلسفہ ہوتا ہے جوان
بنی ٹھنی لڑکی کاؤنٹر یا ریسیپشن پر بیٹھی ہو تو کسٹمرز بڑھ جاتے ہیں ، لیکن جلد
ہی یہ غبارہ بھی پھوٹا ، کام کیا یا کر نہ سکی بہرحال مورودالزام مالک کو ٹہرایا
گیا کہ مین میخ نکالتا ہے ، راشدہ کے کام سے خوش نہیں ہوتا پیسے دینے میں تنگ کر
رہا ہے, جب راشدہ کو اچانک اپینڈکس کا درد اٹھا تو وہ ہی دفتر سے ہسپتال لے کر گیا
اور علاج کے پیسے دئیے ، اب اتنا برا مالک کہاں ملے گا کہ علاج کے پیسے دے دئیے
اور مہینے کی تنخواہ نہیں دی ، ماسی کی باتیں بھی سبحان اللہ، کہنے کو تو ماسی شمیم
ہر وقت الحمدللہ کہتی سنائی دیتی اور ساتھ ہی دکھڑے سنا کر پیسے بھی مانگتی کبھی
بیٹے کی جیب کٹ گئ کبھی پوتی کی بیماری ، پھر شوہر کا مستقل گھر بیٹھے رہنا کہ اس
کا شوہر نہایت حسین مرد ہے اس لیے کوئی چڑیل، بھوتنی یا جننی عاشق ہوگئ وہ اسے گھر
سے باہر نکلنے نہیں دیتی ،جب اس مرد کو کام کرنے کو کہو تو شوہر گندی غلیظ گالیاں
نکالتا ہے کیونکہ جن بھوت اس کو گالیاں دینےپر اکساتے ہیں، جب وہ گالیاں دیتاہے تو
شیطانی ٹولہ خوش ہوتا ہے اور اس کے شوہر کی طبعیت ٹھیک ہوجاتی ہے اور جیسے ہی وہ
کام کے لیے نکلتاہے تو اس کے راستے میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں تاکہ یہ ہر وقت بستر پر
لیٹےچائے سگریٹ پیتا رہے ,. بیوی پر ایسے اثرات ہیں کہ ماسی سارے دن کام کرے اور
پیسہ کمائے ، سارا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے
پھر
بقول ماسی کہ وہ خود بھی بہت اچھے گھر کی تھی لیکن خوبصورت شوہر پر عاشق جننی نے
ان دونوں کو کبھی محبت سے رہنے نہیں دیا ، ساس نندوں کے ذریعے تعویذ گنڈے کروا
دئیے نوبت طلاق تک پہنچی طلاق نامہ لکھا گیا شوہر نے ماسی کے ہاتھ میں دے دیا پھر
لوگوں نے باتیں سنائیں اور اچانک شوہر نے کہا کہ پتہ نہیں مجھے کیا ہوجاتا ہے، میں
نے طلاق خود نہیں دی یہ تو جادو ٹونے کے اثرات ہیں پھر سب کی ملی بھگت سے گھر بس
گیا اور مذید چار بچے ہوگئے اور یہ سب جادو کی وجہ سے ممکن ہوایا جن بھوت کی وجہ
سے کہ صرف پانچ بچے ہو سکے کیونکہ عاشق بھوتنی نے بچے بند کروا دئیے شوہر باہر چلا
گیا وہاں پہلے تو خوب غلط کام کیے اور جننی یا بھوتنی نے شراب پینے پر مجبور کیا
،جوا کھیلا پھر اچانک اسے لگا کہ جب سعودی عرب میں ہے تو حج تو کر لے پھرسب جمع
جوڑ پیسے خرچ کر ڈالے حج پہ حج عمرے پہ عمرہ کیا وہاں سے ماسی کے لیے زیور بنوا کر
لایا ، پھر جب پاکستان پہنچا تو بیوی بیمار تھی تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی، اس حسین
شوہر نے بیوی کے علاج کے لیے کوئی پیسے نہیں دئیے لوگوں سے مانگ کر علاج کروایا
اور مقروض ماسی شمیم ہوگئ اسی دوران وہ خود بیمار ہوااور بہت شدید بیماری جو ماسی
شاید چھپانا چاہتی تھی کبھی نہیں ذکر کرےی لیکن خیر اس بیماری پر بیوی کا سارا
زیور چپکے سے بیچ کر اپنے علاج پر لگا بیماری ختم نہ ہوئی زیور ختم ہوگیا ،
اور
ماسی ہمیشہ نم آنکھوں سے اپنے ایک تولے سونے کے ڈنڈی جھمکوں کا ذکر کرتی رہتی ہے
کہ جسے ایک بار بھی پہننا اس کے نصیب میں نہیں تھا
اب
اسی باپ کی چھوٹی لاڈلی بیٹی آٹھویں کے بعد پڑھ نہیں سکی کیونکہ اسی جن بھوت نے اس
کی نظر کمزور کردی اور پڑھنے سے دل اچاٹ ہوگیا
جب
پڑھنے بیٹھتی عجیب خیالات آتے اور سب بھول جاتا بڑے بہن بھائی غربت کی وجہ سے نہیں
پڑھ سکے اور یہ راشدہ صاحبہ بھوتنی پھپھو کی وجہ سے ، عجیب کہانیاں تھیں ماسی کے
پاس ،اب وہ سب کو سناتیں اور کمال یہ کہ جن عاملوں نے ان کے اوپر سے جادو کے اثرات
ختم کیے تھے وہ اتنے طاقتور تھے کہ فون پر سے ہی دم کردیتے تھے ، پھر ان کی طاقت
اتنی تھی کہ کئی سال پہلے جب جادو آسیب کے شدید اثرات تھے تو ایک رات تڑپتی ماسی
کو پانی پر دم کرکے دیا کہ " آج رات بارہ بجے تک , اگر بچ گئیں تو پھر ٹھیک
ہوجاؤ گی ورنہ ختم "
سارے
بچے پلنگ کے گرد بیٹھ کر رونے سسکنے لگے ،نظریں گھڑی پر اور کفن دفن کا بندوبست
کرنے کا خیال نہیں آیاکیونکہ شوہر تو چڑیل کے ساتھ مگن تھا اور ماسی جن بھوت اور
جادو ٹونے سے نبرد آزما ، سوئیاں 12 پر پہنچیں اور پھر اچانک بچے چیخے، دکھ سے
نہیں بلکہ خوشی سے کہ ماں زندہ ہے ، جیسے جیالے خوشی سے نعرے لگاتے ہیں بھٹو زندہ
ہے بس اسی طرح اماں زندہ ہے اور صبح تک ماسی چنگی بھلی ہو گئ اور رنگ جو کالے توے
کی طرح تھااب سانولا ہوگیا بقول ماسی کہ وہ لڑکپن میں بہت گوری ہواکرتی تھی وہ تو
کالے جادو نے منہ کالا کرڈالا، اب انکے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شادی شدہ تھے سب
بال بچے دار لیکن چھوٹا بیٹا نشئ اور چھوٹی بیٹی شوقین مزاج اور یہ سب جادو کے
اثرات تھے ، وقت گزرتا گیا اور ماسی شمیم حالات اور زمانے سے لڑتے بھڑتے 55 سال کی
ہوگئیں اور عامل ماسی کو مکمل نجات دلا سکتے تھے مگر موٹی رقم درکار تھی ، کتنی
کمال بات ہے کہ عامل جن بھوت بھگا سکتے ہیں ، جادو ٹونے سے چھٹکارا دلا سکتے ییں
مگر اپنے لیے دولت نہیں حاصل کرسکتے چونکہ ماسی کو بہت ڈیپریشن تھا تو ڈاکٹر نے
کہا گھر میں نہ بیٹھو باہر جاؤ گھومو پھرو لوگوں سے باتیں کرو، تاکہ تمھاری طبعیت
ٹھیک ہو ،اب ان ڈاکٹر صاحب کو کوئی کیسے بتاتا کہ ماسی کے بولنے سے اس کا ڈیپریشن
کم ہوتاہے مگر ایسی باتیں سن کر لوگوں کا ڈیپریشن بڑھ جاتا ہے، المختصر ماسی بوڑھی
اور بچے جوان ہوگئے، چھوٹے بیٹے کی شادی سے پہلے یہ چھوٹی بیٹی کے رشتے کے لیے بہت
بے تاب تھی، ترلے منتیں کرکے جہیز جمع کرنے کی مہم جاری تھی ، کبھی عید پر عیدی
،فطرانے اور زکوٰۃ مانگتیں کبھی بقرعید پر ، کھالیں صاف کرنے اور سری پائے پکانے
یا بنانے ، ہر وقت ہر کام کو تیار رہتیں ، بہت محنتی ،کسی کاکھانا پکا دیاکسی کے کپڑے
سی دئیے کسی کے گرم لحاف کمبل مچان پر چڑھا دیے ، رضائیاں دھنوا کر ان پر غلاف
چڑھادیے، لحاف گدوں میں نگندےڈال دئیے الغرض محلے کے سارے گھروں میں ان کا آناجانا
اور لین دین چلتا تھا ، اب انھیں فکر تھی تو بس چھوٹی بیٹی کی شادی کی اور پھر
اچانک انکشاف ہوا کہ چھوٹی بیٹی راشدہ رانی نے اپنے پھپھو کے بیٹے سے شادی کی
رضامندی دے دی ، اور کافی عرصے سے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے مگر لڑکا بلکل
چپ تھا اور اس کی "چپی "تب ٹوٹی جب اس کی ساتویں منگنی ٹوٹی اب اس مرد
کی عمر بھی 30سال کے قریب ہو چکی تھی 6,7 گھروں میں جاکر کھانے کھابے کھائے
منگنیاں رچائیں کچھ خود بھی شاید کیا یا دیا ہوگالیکن یقین ہے کہ لڑکی والوں سے بس
لیا ہی لیاہوگا اور کیسے ممکن ہے کہ لڑکی والوں کے گھر نہ جاتا ہو پھر لڑکیوں سے
فون پر باتین نہ کرتا ہو اگر راشدہ رانی چار پانچ سال سے پسند تھیں تو پہلے ہی کیوں
نہ عندیہ دے دیا خواہمخواہ سات گھروں میں منگنی کرکے پھر توڑ کر بدمزگی اور نحوست
پھیلائی
بے چارے لڑکی والوں کو
دیگر رشتے لانے والوں کو نجانے کیاکیاصفائیاں دینی پڑی ہوں گی ،کسی کو کیا بتائیں
گے میاں رفاقت علی صاحب کیل کانٹوں یعنی پرزے جوڑنے کا نہیں بلکہ منگنی کرکے رشتہ
کے ساتھ ساتھ دل بھی توڑنے کے بھی ماہر ہیں ماسی شمیم تو رفاقت علی کے صدقے واری
جانے لگیں کہ بہت اونچا لمبا نوجوان ہے دوسری منزل پر بڑا اچھا کمرہ بنوایا ہے چپس
لگوایا ہے،
بہت شوق تھا اسے راشدہ
سے شادی کا ، اس نے ہربار اپنی ماں کے کہنے پر منگنی کی پھر توڑیں اور وہ اپنی
زبان کا پکا ہے چاہے سو منگنیاں ہوجائیں وہ یونہی دو چار ماہ بعد کسی نہ کسی بہانے
سے توڑتا رہے گا
اسے
صرف راشدہ سے سچی محبت ہے اور راشدہ بھی ہر رشتہ ٹھکراتی رہی کہ شادی کرے گی تو
رفاقت سے اب راشدہ 24 سال کی ہوئی تو رفاقت نے سالگرہ کی مبارکباد دی اور کہا اگر
میرے گھر ہوتیں تو پھر تم دیکھتی میں کیسے سالگرہ مناتا ایسے ایسے خواب دکھائے اور
کوئی دھیلا دمڑی ہاتھ پر نہ رکھا الٹا ماں بیٹاخوب کھا پی کر چلے گئے لیکن یہ اچھا
ہوا کہ راشدہ کا ہاتھ مانگ لیا سالگرہ کے موقع پر ،خوشی خوشی رشتہ طے ہوا اور تین
دن بعد منگنی کا دن رکھا گیا مگر اچانک ماسی شمیم کی غیر موجودگی میں راشدہ نے بڑے
بہنوئی کو راضی کیا دونوں موٹر بائیک پر گئے شادی ہال میں نکاح کا انتظام کرنے
کاکہا اور واپس آگئے ماسی شمیم اور سب اہل خانہ ہکا بکا رہ گئے بہنوئی اور راشدہ
کے سوا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور منگنی کی جگہ نکاح کی تقریب رکھی گئ گھر
گھر کی منگنی کی جگہ سو بندے نکاح میں شریک ہوئے ،ماسی شمیم ایک لاکھ کی مقروض
ہوگئیں ابھی تو مئ کے مہینے کا آخر تھا کرونا کی وبا بھی حوا بنی ہوئی تھی اس لیے
کم پیسوں میں ہال بک ہوگیا کھانا اپنا اور سب ملا کر سو بندے ، پھر سارے گھروں میں
چاول بٹے کہ راشدہ کے نکاح کی بریانی ، سب اہل محلہ نے کہا کہ نکاح کیا تھا تو
رخصتی بھی ساتھ کرنے میں ہرج کیا تھا جبکہ راشدہ نے نکاح کا جوڑا بھی ساس کے ساتھ
جاکر گیارہ ہزار کا لیا کہ کہیں ڈنڈی نہ مار دےاور میک اپ بھی بیوٹی پارلر سے
کروایا پانچ سات جوڑے جیسے تیسے ساس لائی ،دس گیارہ جوڑے محلے والوں، نے دئیے پھر
درشتے داروں نے بھی تو کچھ نہ کچھ دیا ہوگا سب نے ماسی کو حسب توفیق نقد رقم بھی
دی ،کچھ سامان کمبل کھیس بستر برتن ماسی نے جمع کر رکھے تھے وہ گھر میں موجود تھے تو
پھر صرف نکاح کیوں کیا ساتھ ہی ،رخصتی کیوں نہیں کر ڈالی اور کیا دینا تھا سب کو
غصہ چڑھ گیا
ماسی
شمیم نے لجاجت سے کہا کہ راشدہ نے کہاپہلے نکاح کرکے لوگوں کی زبانیں بند کرنی
تھیں کہ منگنی نہیں جو ٹوٹنے کا ڈر ہو دوسری بات راشدہ کو شادی کی شاپنگ شوہر کے
ساتھ بازاروں میں ساتھ گھوم کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر کرنی تھی لہذا نکاح لازمی
تھا کہ کوئی کردار پر انگلی نہ اٹھائے
تیسری
بات اسے شوق تھا کہ میری شادی کی تقریبات خوب ساری ہوں اب جیسے نکاح سے پہلے مہندی
کی رسم ہوئی، خوب ڈھول ڈھمکہ ہوا اسی طرح بڑی عید جو جولائی میں آنی تھی بڑی عید
کے تیسرے روز رات کومہندی اور مایوں ہوگی پھر تین دن بعد بارات اور پھر دو دن بعد
ولیمہ ،پورے آٹھ دن کا جشن ،
جس
جس نے یہ منصوبہ بندی سنی اس کا خون کھولا سب نے جو کپڑے پیسے دئیے تھے انھی پر
اکتفا کیا اور ڈیڑھ ماہ بعد دوبارہ یہ سب کچھ دینے سے احترازبرتا اہل محلہ بھی تو
سفید پوش ہی تھے خیر ماسی شمیم پھر بھی کوشش میں لگی رہیں کہ مذید پیسے کپڑے وغیرہ
مل سکیں مگر شایدہی مذید کسی نے کچھ ہاتھ میں رکھاہو ،بس ٹھنڈ ہی رہی ،
بڑی عید آئی شادی ہوئی
ماسی
نے رج کے چھٹیاں کیں اور خوب جشن منایا دولہے کو جو دیا سو دیا جہیز کے نام پر
راشدہ رانی ڈبل بیڈ ،سنگھار میز ،برتنوں کی الماری اور چھوٹا صوفہ سیٹ لے گئیں اور
کپڑوں ،کمبل لحاف کی الماری کمرے کی دیوار کے ساتھ چوبی الماری بنانے کا فیصلہ ہوا
شادی سے ایک ہفتے پہلے رفاقت علی نے اپنی نگرانی میں کمرے کی پوری دیوار جتنی لمبی
الماری نصب کروائی ایک لاکھ میں بنی الماری بہت دیدہ زیب تھی باقی فرنیچر بھی اس
سے ہم اہنگ کرنے کی بھرپور کوشش ہوئی اور ایک خوبصورت کمرہ سج گیا دولہا دلہن کی
سیج بھی تازہ پھولوں اور نقلی پھولوں کی آمیزش سے سجائی گئ اور شادی کی تقریب ختم
ہوگئ مئ کے اواخر سے لے کر جولائی تک چلنے والا ڈیڑھ ماہ کا ہلہ گلا اختتام کو
پہنچا ،ماسی شمیم نے رفاقت کے قصیدے پڑھنے بند کر دئیے اور راشدہ رانی کی اچھی
خوشگوار زندگی کی دعائیں کروا کر خاموش ہوگئیں جولائی کے آخری دن چل رہے تھے
بارشیں تھیں ماسی شمیم پھر سے متفکر نظر آنے لگیں سب جانتے تھے کہ وہ چار لاکھ کی
مقروض ہوچکی تھیں لیکن اب نئ فکر کیا
اگست
کاپہلاہفتہ ختم ہوااور سب کو یاد تھا کہ راشدہ اور رفاقت کی شادی کو ایک ماہ ہوگیا
،سب نے مبارکباد دی تو ماسی شمیم نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا اب کیاماجرہ ہوا
ایک بار پھر سب پریشان ،
بتائیں
نا کیاہوا ، سب اہل محلہ تشویش میں پڑگئے
ماسی
شمیم کی ہچکیاں بندھ گئیں کسی رحم دل نے بڑھ کر دلاسہ دیا کسی نے پانی پلایا
کچھ
ہمت بندھی کچھ حلق تر ہوا تو ماسی نے بتایا
"رفاقت نے راشدہ کو طلاق
دے دی "
یہ
سننا تھا کہ ہر مرد وزن نے رفاقت کو گالیاں دینا شروع کردیں کیسا خبیث مرد ہے ؟
کتناظالم ، لالچی ،کتنا پیسہ خرچ ہوا ؟ جوان بچی کی زندگی خراب کر دی ؟ پہلے ہی
لڑکیوں کو اچھا رشتہ نہیں ملتا اب یہ دھبہ بھی،اللہ معافی
جتنے
منہ اتنی باتیں۔۔۔
ایسے
مرد کی تو پھینٹی لگانی چاہیے ،
اچانک
کیاہوا ،
طلاق
دینے سے پہلے بڑوں سے صلاح مشورہ تو کرتا،
ایسا
کیا غصہ کہ زبان پر قابو نہ رکھ سکا
اتنی
محبت سے بیاہ رچا کر اتنی جلدی دل بھر گیا ،
،جھگڑا کیا تھا،؟
مسئلہ
کیا تھا؟
شادی
کو دن ہی کتنے ہوئے تھے؟ توبہ توبہ کیسا مرد نکلا؟
ماسی
شمیم آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑی لگائے ،تھوڑی دیر تک سنتی رہی پھر ہچکچاتے ہوئے
بولی
""اگر مرد ہوتا تو طلاق
کیوں دیتا""
No comments:
Post a Comment