دنیا میں 195 ممالک ہیں ان میں سے ایک اسلامی جمہوریہ
پاکستان ہے جو دنیا کے نقشے میں 1947 ء میں وجود میں آیا۔ اسلام کے نام پر بننے
والا یہ ملک دنیا میں تعلیمی میدان میں 165 ویں نمبر پر ہے۔ دنیا میں تعلیم ہی ایک
بنیادی عمل ہے جس کے بغیر قومیں ترقی نہیں کرتیں۔
تعلیمی پسماندگی کی وجہ:
پاکستان میں تعلیمی پسماندگی کی وجہ پاکستان کا تعلیمی نظام
ہے۔ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان میں اردو کا رائج کیا جائے گا۔ لیکن آج
بھی سکولوں میں انگلش میڈیم تعلیم دی جا
رہی ہے کوئی قوم اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسرے ملک کی زبان کو اپنا کر کیسے ترقی کر
سکتا ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں بنیادی تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ لیکن
پاکستان میں بچہ پیدہ ہوتے ہی اس کو اے فار ایپل رٹوانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ کبھی
بھی کسی نے اپنے بچے کو الف سے انار بے سے بکری پڑھانا نہیں سکھایا۔ معلوم نہیں اس
ایپل سے باہر کیوں نہیں نکل سکا پاکستان۔ پاکستان کے لوگ اردو میڈیم تعلیم کو کم
تر سمجھتے ہیں۔ اور جو انگلش میں پڑھتے ہیں ان کو بڑا اچھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ
اردو میڈیم میں پڑھنے والا طالب علم زیادہ بہتر انداز میں سبق کے عنوانات کو سمجھ
سکتا ہے۔ نہ کہ انگلش میڈیم میں پڑھنے والا رٹا لگا لگا کر نمبر گیم میں تو آگے
بڑھ جاتا ہے لیکن کسی بھی مناسب سوال کا جواب دینے سے قاصر رہتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر
ہوا کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔
ایک زمانہ تھا پانچویں کلاس تک سرکاری سکولوں میں انگلش کا
کوئی رواج نہ تھا۔ انگلش کی بک چھٹی کلاس میں پڑھتے تھے۔ اج کل بچے نرسری کلاس سے
انگلش پڑھ رہے ہیں لیکن انگلش پھر بھی نہیں آتی۔ وہ دس سال صرٖف رٹا ہی لگاتا رہتا
ہے۔ نہ وہ انگلش بول سکتا ہے اور نہ ہی سمجھ سکتا ہے۔
سکولوں کی حالت دیکھیں تو حکومت دعوے بہت کرتی ہے کہ سکولوں
کو بہتر کیا گیا ہے لکن کیا اساتذہ کی تربیت کی گئی بس زبانی جمع خرچ تک تو بہت کی
گئی ہے۔
ایک قوم ایک نصاب نافذ العمل ہے۔ لیکن کیا یہ نصاب قوم کو
ایک کر پائے گا۔ نصاب ایسا بنایا گیا ہے جس میں سائینس انگلش میں اور ریاضی انگلش
میں رکھا گیا ہے۔ قوم کے بچوں کو ان کی اپنی زبان میں سائینس کا بنیادی علم دیا
جاتا تو بہتر ہوتا۔ ریاضی مین وہ ٹو ان زا ٹو پرھنے کی بجائے ایک دونی دونی دو
دونی چار پڑھتے تو ساری عمر ان کو یاد رہتا۔ ایک سو کی رقم لکھنے تک ان کو یاد
رہتا اب ایک سو کی بجائے ان کو ون ہنڈرڈ لکھنا پڑھنتا ہے۔ کاش کہ ہمارے حکمرانو کو
سمجھ میں آئے کہ کوئی بھی قوم اپنی زبان کو چھوڑ کر ترقی نہیں کر پاتی۔ انگریزی
تعلیم کو بھی ضرور پڑھایا جائے۔ لیکن چھٹی کلاس سے انگریزی سکھائی جائے نہ کہ
پڑھائی جائے۔ انگریزی پڑھانے والا استاد ایسا ہو کہ وہپ روانی سے انگریزی بول سکتا
ہو۔ اور بچوں کو انگریزی بولنا سکھا دے۔ یہاں پر استاد بھی بک سے دیکھ کر انگریزی
کی ٹرانسلیشن کرنے میں مصروف دیکھائی دیتے ہیں۔
والدین بھی اپنے بچوں کو انگریزی سکولوں میں پڑھانے میں فخر
محسوس کرتے ہیں۔ لیکن دس بیس سال انگریزی سکولوں
میں پڑھ کر بھی ان کو انگریزی بول نہیں پاتا باہر سٹڈی ویزہ لگوانے کیلیے اسے
آئلٹس کرنا پڑھتا ہے تب جا کر کچھ نہ کچھ انگریزی بولنے کے قابل ہوتا ہے۔
آٹھویں کلاس کے بعد بچوں کی قابلیت کو دیکھ کر مضامین
رکھوائے جاتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں تو بچے کی دلچسپی کو دیکھ کر مضامین کا انتخاب
کروایا جاتا ہے۔ کہ بچہ کونسے مضمون میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے او بچے کو اسی
مضامیں پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں ہر والدین بچے کو سائینس دان اور
ڈاکٹر بنوانا چاہتا ہے۔ لیکن پاکستان میں سائنس دان بن کوئی نہیں پاتا۔ ٹیکنیکل
کالجوں میں طلباء کی تعداد بہت کی کم داخلہ لیتی ہے۔ اور ایف ایس سی کرنے والے
کالجوں میں جگہ نہیں ملتی۔ حکومت نقل مافیہ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ پانچویں اور
آٹھویں کے امتحانات اس وجہ سے ختم کر دیے گئے کہ بچے نقل کرنا سیکھتے ہیں۔ بندہ ان
سے پوچھے کہ بچوں کو نقل کرواتا کون ہے۔ سکول کے اساتذہ یا پھر پرچے لینے والے۔
اگر پانچویں اور آٹھویں کلاس کے بچے ہی اگر اپنی محنت سے آگے آئیں تو آگے بچوں کو
رٹا لگا لگا کر نمبر بڑھانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اگر آپ بھی اپنے ارد
گرد تعلیمی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں تو کومنٹس سیکشن میں ضرور بتائیں
No comments:
Post a Comment