سائنس اینڈ ٹیکنالوجی

16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کے دو اہم واقعات : ہم نے کیا سیکھا؟

16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کے دو اہم واقعات : ہم نے کیا سیکھا؟ 


16 دسمبر اور پاکستان میں ہونے والے دو اہم واقعات


16 دسمبر پاکستان کی تاریخ کے دو اہم واقعات : ہم نے  تاریخ سے کیا سبق کیا سیکھا؟

سولہ دسمبر پاکستان کی تاریخ  کا سیاہ ترین دن مانا جاتا ہے۔   اس پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ بنگلہ دیش کا قیام ہے۔ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ کسی نے آج تک اس کے محرکات کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ آخر کیا وجہ تھی کہ پاکستان بنانے کی تحریک میں سب سے زیادہ کوششیں کرنے والے صرف 24 سال بعد ہی پاکستان کے مخالف ہو گئے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام ہی بنگال کے شہر ڈھاکہ میں ہوا تھا اور قائداعظم نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔  مطلب کہ پاکستان  آل انڈیا مسلم لیگ نے بنایا تھا  تو مسلم لیگ  بنانے والے کون تھے؟

قائد اعظم کا والہانہ استقبال کرنے والے قائداعظم کے پاکستان سے اتنے دور کیسے ہو گئے؟ دل میں بہت سے ایسے خیالات ہیں جن کا جواب آج تک نہیں دیا گیا۔ 1965ء کی جنگ میں انڈیا کے خلاف لڑنے والے انڈیا کو ناکوں چنے چبانے والے مشرقی پاکستان کے لوگ  1971ء کی جنگ میں انڈیا کے ساتھ کیسے مل گئے؟

جب ملک میں قانون ہوتا ہے اور اس قانون کا احترام کیا جاتا ہے۔ وہ ملک دیر تک قائم رہتے ہیں۔

16 دسمبر 1971ء میں پاکستان کا دو لخت ہو جانا   ہی اس بات کی گواہی تھا کہ قانون کی حکمرانی نہیں تھی انصاف نہیں تھا۔ بار بار آئین کی پامالی اس کی وجہ تھا۔ حق تلفی تھا۔  کسی بھی ملک میں کوئی پارٹی الیکشن جیت جاتی ہے تو اس کو حکومت بنانا بھی اس کا حق ہوتا ہے۔ 1970 ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان  عوامی لیگ نے پاکستان کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے اور واضح کامیابی ملی۔ حکومت بنانا بھی ان کا ہی حق تھا۔ جب ان کو حکومت بنانے نہیں دی۔ تو انہوں نے پھر علیحدہ ہونے کا سوچا اور پھر ہمارا ہمسایہ چالاک دشمن بھارت اور کو بھی اپنی چالاکی چالانے کا موقع مل گیا۔ اور  انتخابات کے صرف ایک سال بعد ہی انڈیا نے موقع پا کر مشرقی اور مغربی پاکستان پر حملہ کر دیا۔ اور مکتی باہنی انڈین آرمی کے ساتھ مل کر لڑی اور پاکستان کی آرمی  نے ڈھاکہ میں ہتھیار  ڈال دیے۔

ساری چیزیں قائداعظم کے ارشادات کے خلاف ہوئی۔ قائداعظم کا ارشاد تھا کہ ہم اس وقت تک ہار نہیں مانے گے جب تک دشمن ہمیں بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں۔ اور بات کو ہتھیار ڈالنے والے کیوں بھول گئے کہ آج تک انڈیا اور بنگلہ دیش مل کر 16 دسمبر کو جشن مناتے ہیں اور  پاکستانیوں کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس سے بہتر کا مارے جاتے تو شہادت کا رتبہ پاتے۔ اور عظیم کہلاتے۔  لیکن افسوس صدر افسوس

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے تاریخ سے کچھ سبق سیکھا یا پھر ابھی تک ہم اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں قانون کی حکمرانی کہیں نظر نہیں آتی حق تلفی، نا انصافی ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ بلوچ ہوں یا پشتون یا کراچی کے مہاجر  سندھی ہوں ہا پنجابی  سب پاکستانی کہیں نہ کہیں نا انصافی حق تلفی کی شکائت کرتے نظر آتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ پاکستان میں لیڈرشپ کی کمی ہے۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کو کوئی ایس لیڈر نہیں ملا جو پاکستان کو جوڑ کر رکھے۔ صوبائیت  اور مذہب سے بالا تر ہو کر پاکستانی ہو کر سوچے۔

1971ء کی جنگ کے بعد پاکستان نے مضبوط ہونے کیلئے بہت کوششیں کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ تب کے پاکستان اور آج کے پاکستان میں دفاعی لحاظ سے بہت فرق ہے۔ آج پاکستان دفاعی لحاظ سے اتنا مضبوط ہے کہ اگر اب جنگ ہو جائے انڈیا سے تو انڈیا کے دو نہیں پانچ ٹکڑے کر سکتا ہے۔

لیکن صرف انتا ہی نہیں آج  جنگ کے طریقے بہت بدل گئے ہیں۔ آج ہمیں دفاعی لحاظ سے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی لحاظ سے مضبوط ہونا  ہوگا۔ آج دنیا میں عزت اسی قوم کی ہے جو معاشی لحاظ سے مضبوط ہے۔ اگر ہم نے انڈیا کو ہرانا ہے تو ہمیں معاشی لحاظ سے اس سے آگے نکلنا ہو گا۔ دنیا میں اسی ملک کی معشیت مضبوط  ہوتی ہے جہاں قانون سب کیلیے برابر ہو۔ جہاں مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہ ہو۔ جہاں سب انسان برابر ہوں ۔ جب ایک انسان کو یہ یقین ہو جائے کہ  اس ملک میں میرے ساتھ نا انصافی نہیں ہو گی۔ میری حق تلفی نہیں کی جائے گی تو   اس ملک میں اپنا سرمایا لگانے میں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ تو ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگوں کو روز گار بھی ملے گا اور ملک میں رہنے والوں کا معیار زندگی  بلند ہوتا جاتا ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین

سانحہ پشاور

اب آتے ہیں  16 دسمبر  2014ء کو پشاور میں رونما ہونے والے دلخراش واقعے کی جانب جہاں پاکستانی طالبان میں آرمی پبلک سکول کے طلباء کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی۔

فوج کا کہنا ہے کہ پاکستانی طالبان کے عسکریت پسندوں نے پشاور میں فوج کے زیر انتظام اسکول پر حملہ کر کے 141 افراد کو شہید کر دیا ہے، جن میں سے 132 بچے تھے۔

اپنے ہسپتال کے بیڈ سے بی بی سی کی شمع خلیل پر حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے، 17 سالہ شاہ رخ خان نے کہا کہ ایک بندوق بردار ان کے کلاس روم میں داخل ہوا اور بے ترتیب فائرنگ کی۔

 

جب وہ کلاس روم کے ایک ڈیسک کے نیچے چھپ گیا تو اس نے اپنے دوستوں کو گولیاں لگتے ہوئے دیکھا، کسی کو  سر میں اور کسی کے سینے میں۔ بہت ہی دلخراش منظر تھا۔ دو اساتذہ بھی شہید گئے۔

طالبان کے ایک ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ فوج کے زیر انتظام اسکول کو فوجی کارروائیوں کے جواب میں نشانہ بنایا گیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان اور قریبی خیبر کے علاقے میں حالیہ کارروائی میں سینکڑوں طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔

امریکی صدر براک اوباما نے کہا کہ دہشت گردوں نے "ایک بار پھر اپنی بدکاری کا مظاہرہ کیا ہے" جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ یہ "خوفناک اور بزدلی کا عمل" ہے۔

 آخر بات یہ ہے کہ آج بھی پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے خلاف سرگر ہیں۔ وہ پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور پاکستان کو کمزور کرنے کیلیے پاکستانیوں کا ہی استعمال کرتی ہیں۔

ہمیں پاکستان میں ظلم اور نا انصافی ہو ختم کرنا ہے تا کہ کوئی دشمن ظلم اور نا انصافی میں پسے ہوئے پاکستانی کو استعمال میں لا کر پاکستانیوں پر مزید ظلم نہ ڈھا سکے۔

اللہ ہمارے ملک پاکستان کو ہمیشہ قائم رکھے آمین

 




Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.